حوزہ نیوز ایجنسی | وزیر اعظم نریندر مودی عوام کو سبز باغ دکھلانے میں بلا کی مہارت رکھتےہیں ۔عوام ان کے وعدوں اور دعووں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کی قیادت پر عوام کا اندھا اعتبار ان کی بے پناہ مقبولیت کو ظاہر کرتاہے ۔مہنگائی کے اس دور میں بھی عوام ان کی قیادت کی تنقید کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔
بی جے پی کی حریف جماعتوں کے لئے عوام کی یہی ’اندھ بھکتی‘ بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے جس کا نقصان انہیں بہار اور بنگال کے انتخابات میں بھی ہوگا۔عوام بی جے پی کے اعلیٰ قائدین کی ناتجربہ کاری ، لاعلمیت اور نااہلی سے اچھی طرح واقف ہے مگر بی جے پی نے عوام کومنافرانہ سیاست اور فرقہ پرستی کے جس دام فریب میں الجھایاہے اس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کے پاس حکومت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لئے اس کی ناتجربہ کاری نے ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔داخلی سیاست پرنفرت اور فرقہ پرستی کو مسلط کردیا گیا اور خارجہ پالیسی استعمار کی خوشنودی کے حصول کے لئے یکسر بدل دی گئی ۔ہندوئوں کو متحد کرنے کے لئے فرقہ پرستی اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کی سیاست کا سہارا لینا ،بی جے پی کا ذاتی خیال نہیں تھا ۔بلکہ اسی گھنائونی سیاست کے سہارے ایک عرصے تک عیسائیت نےمسلمانوں کے خلاف تخریب کاریاں سرانجام دی تھیں اور آج یہودیت اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔
استعمار کے حلیف اس کے ہتھکنڈوں اور سیاسی چالوںسے آزادنہیں ہوسکتے ،یہی وجہ ہے کہ آرایس ایس جیسی جماعت نے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے ان تمام حربوں کو استعمال کیا جن سے ہمارے ملک کی سیاست بے خبر تھی ۔یہ کامیابی ایک بار میں ہاتھ نہیں لگی بلکہ آزادی سے پہلے اور فوراََ بعد ہیڈگوار اور ساورکر جیسے لیڈروں کی رہنمائی میں یہ کوشش جاری رہی ۔
آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں سے نجات اور ان کے خاتمے کے لئے کھل عام باتیں ہورہی ہیں اورگزشتہ دس سالوں میں سیاست کا رخ اس قدر تبدیل ہوگیاکہ اقلیتی طبقہ انگشت بدنداں ہے ۔اس کی بڑی وجہ اقلیتی طبقہ کی غیر منظم سیاسی سوچ اور مرکزی قیادت کا فقدان ہے ۔ملک کی سیاست کی باگ ڈور استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور مسلمان سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا،یہ ایک المیہ ہے ۔ہندوئوں کو جب تک اس گھنائونی سیاست کا صحیح اندازہ ہوگا ،صورتحال بے قابو ہوچکی ہوگی اور پھر ملک کی سیاست کے نفرت آمیز دھارے کو بدلنا ممکن نہیں ہوگا۔اس وقت ملک کے عوام کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر ہماری سرکار استعمار پر اس قدر فریفتہ کیوں ہے؟۔
ہمیں سمجھنا ہوگاکہ جس وقت امریکی دبائو میں ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت منسوخ کی تھی ،اس وقت امریکہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ہندوستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا ۔مگر جیسے ہی ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت ختم کی ،امریکی مؤقف بدل گیا۔امریکہ نے واضح الفاظ میں ہندوستانی سرکار سے کہاکہ وہ بازار سے کم قیمت پر تیل فراہم نہیں کرسکتا۔ہندوستان نے سعودی عرب سےاضافی تیل کی فراہمی کے سلسلے میںمذاکرات کئے مگر نتیجہ بے سود رہا ۔کیونکہ سعودی عرب کی تیل ریفائنریز کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دوسروں ملکوں سے تجارتی تعلقات کو بحال رکھتے ہوئے ہندوستان کو اضافی تیل فروخت کرسکیں۔اس وقت ہندوستان سب سے زیادہ عراق اور سعودی عرب سے تیل برآمد کررہاہے ۔مگر عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں کم ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے عوام کو سستا تیل مہیا نہیں کراپارہاہے ۔اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑرہاہے جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی بدحالی کا شکارہے ۔تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام ضروریات کی چیزوں کو بھی متاثر کیاہے ۔مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور عام آدمی اپنی ضروریات کو پورا کرنے سے بھی قاصر ہے ۔ایسے حالات میں ہندوستان اگر اپنے پرانے دوستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا تو حالات مزید بدتر ہوں گے ۔
جس وقت نریندر مودی پہلی بار بر سر اقتدار آئے تھے ،اس وقت تیل کی قیمتیں عالمی بازار میں عروج پر تھیں۔اس کے باوجود ان کا دعویٰ تھا کہ عوام کو سستا تیل دستیاب ہونا چاہئے ۔انہوں نے تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتوں کو لیکر کانگریس سرکار کے خلاف محاذ کھول دیا تھا ۔مگر جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں اس کے بعد سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہواہے ۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب بھی ان کے وزیروں سے اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ تیل اور گیس کی قیمتیں ان کے اختیار میں نہیں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جس وقت بی جے پی کانگریس کے خلاف مہنگائی کو لیکر مظاہرے کررہی تھی ،کیا اس وقت بی جے پی کو یہ معلوم نہیں تھاکہ مہنگائی پر سرکار کا قابو نہیں ہوتاہے ؟۔اور اگر اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کومہنگائی کی حقیقت کا علم ہواہے تو پھر انہیں اپنے تمام ان سابقہ مظاہروں اور احتجاجات پر ملک سے معافی مانگنی چاہئے ،جو انہوں نے کانگریس سرکار میں مہنگائی کے خلاف کئے تھے ۔مگر جناب !سیاست کا کھیل نرالاہے ۔یہاں سچ کی کوئی اہمیت نہیں ،جھوٹ کا بول بالاہے ۔آج بھی بی جے پی مہنگائی ،کورونا وائرس،چین سے تنازع اور دیگر مسائل کے سلسلے میں سفید جھوٹ بول رہی ہے مگر ’گودی میڈیا‘ اور ’بھکت‘ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔
نریندر مودی اپنے عجلت پسند انہ فیصلوں کے لئے جانے جاتے ہیں۔ان کے غیر منصوبہ بند لاک ڈائون نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی اور عوام پر فاقوں کی نوبت آچکی ہے مگر اب بھی ان کے یہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور عام آدمی مہنگائی سے پریشان ہے ۔اس کی آمدنی کا سلسلہ تو پہلے لاک ڈائون کے بعد ہی ختم ہوگیا تھا ،اس پر مہنگائی کی مار نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔سرکار غریبوں کو جتنا راشن مہیا کرارہی ہے وہ ان کی گذر بسر کے لئے کافی نہیں ہے ۔بے روزگاری عروج پر ہے اور مزدور طبقہ جو پہلے بڑے شہروں میں روزی روٹی کمارہا تھا ،آج اپنے گھروں پر بیکار بیٹھا ہواہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی سرکار کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔اس کی بڑی وجہ ہندوستان کی اسرائیل دوستی ہے ۔مودی سرکار کو اب تک اس حقیقت کا علم نہیں ہوسکاہے کہ اسرائیل دوستی میں وہ ملک کا بیڑا غرق کررہے ہیں ۔اگربھارت سرکار ایران کے ساتھ اپنے دیرینہ روابط کو امریکہ و اسرائیل کی محبت میں بلی نہ چڑھاتی تو تیل کی قیمتیں آسمان نہ چھورہی ہوتیں۔ہندوستان کو دنیا میں سب سے سستا تیل ایران سے ملتا تھا مگر امریکی دبائو میں بی جے پی سرکار نے ایران کے ساتھ تیل کی تجارت ختم کردی ۔اب جبکہ ہندوستان دوبارہ ایران کے ساتھ تجارت کے فروغ پر غوروخو ض کررہاہے اور کئی اشیاء کی خریدوفروخت پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے مگر تیل کا مسئلہ ابھی بھی زیر غور نہیں ہے ۔اگر ایران برے وقت میں وینزوئیلا کا ساتھ دیکر اس کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتاہے تو پھر وہ ہندوستان کی مدد سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا ۔مگر اس کے لئے بھارت سرکار کو اپنی خارجہ پالیسی میں بدلائو لانا ہوگا ۔
ہندوستانی سرکار اگر ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے ان ممالک سے دوبارہ تعلقات ہموار کرنا ہوں گے جو امریکہ اور اسرائیل کے دبائو میں سرد مہری کا شکار ہیں۔چین اور پاکستان کو مہار کرنے کے لئے بھی ایران جیسے طاقتور ملکوں سے دوستی بہت ضروری ہے ۔چین اور ایران کے تعلقات کی گہرائی سے ہندوستان بخوبی واقف ہے ،اسی طرح روس اور ایران کی دوستی بھی کسی سے صیغہ ٔ راز میں نہیں ہے ۔روس کبھی ہندوستان کا سب سے گہرا دوست ہوا کرتا تھا مگر امریکی اور اسرائیلی دبائو میں بی جے پی سرکار نے روس کے ساتھ بھی تجارتی معاملات محدود کرلیے تھے ۔اس کا واضح اثر ہماری داخلی اور خارجی سیاست پر بہت صاف نظر آرہاہے ۔چین کے ساتھ حالیہ تنازعات کے بعد سرکار ہوش میں ضرور آئی ہے اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے روس کا سفر کرکے خوش آئند اشارے دیے ہیں۔ہندوستان ہتھیاروں کی خرید کے سلسلے میں سب سےزیادہ روس پر منحصر تھا مگر اسرائیل دوستی میں یہ معاہدہ بھی محدودیت کا شکارہے ۔راج ناتھ سنگھ کے حالیہ روس دورے میں پرانے معاہدوں پر نظر ثانی اور ان کے استقرار سے صورتحال بدلنے کی امید نظر آتی ہے ۔
ہندوستان کو سمجھنا ہوگاکہ امریکہ اور اسرائیل کی دوستی ظاہری طورپر بہت سود مند ثابت ہوسکتی ہے مگر اس کے برے اثرات دیر پا ہیں۔استعمار ہر حال میں اپنے مفاد کی تکمیل کو ترجیح دیتاہے۔وہ کبھی اپنے مفادات پر ہندوستان کے مفاد کو ترجیح نہیں دے سکتا۔وہیںبی جے پی سرکار کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جو بھی استعمارکا منظور نظر رہاہے ،اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔تاریخ اس کی گواہ ہے ۔یہ بات استعمار کی منظور نظر جماعت آرایس ایس کو بھی سمجھ لینی چاہئے ۔
تحریر: عادل فراز
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔